Sunday 23 August 2015

ایسی چارعادات جو آپ کو کینسر سے محفوظ رکھ سکتی ہیں

لندن: تمام امراض میں سب سے پریشان کن اور تکلیف دہ بیماری اگر کینسر کو قرار دیا جائے تو یہ غلط نہ ہوگا اور کینسر کی اب تک لاتعداد اقسام دریافت ہوچکی ہیں جب کہ صرف چھاتی (بریسٹ) کینسر کی 14 مختلف اقسام دریافت ہوچکی ہیں پھر ہر شخص کا مرض دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اوراسی لیے کینسر کا علاج بہت توجہ اور وقت طلب ہوتا ہے تاہم کچھ ایسی عادات ہیں جنہیں اپنا کر کینسر سے بچا جاسکتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہےکہ اندرونی جسمانی توازن متاثرہونے سے کینسر اپنے بازو پھیلاتا ہے جب کہ ناقص غذا، ورزش میں کمی، منفی خیالات واحساسات اورماحول میں موجود زہریلے مرکبات کینسر کی اہم وجوہ میں ہیں اور ان کا خیال رکھتے ہوئے ہی کینسر کو بڑی حد تک روکا جاسکتا ہے۔
متوازن غذا کا استعمال:
اپنی خوراک کا خاص خیال رکھیں کہ اس میں جسم کے تمام ضروری وٹامن، غذائی اجزا اور معدنیات موجود ہوں کیونکہ ناقص اور غیرمتوازن غذا کے جسم پر دور رس منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگر آپ کو کھانے کی کسی شے سے معمولی الرجی بھی ہے تو اس کا استعمال ترک کردیں، تمباکونوشی اور شراب نوشی مکمل طور پر ترک کردیں کیونکہ دنیا بھر میں کینسر کی اہم وجوہ میں ان عادات کا بہت گہرا تعلق ہے۔
مناسب نیند:
جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ نیند کی کمی امراضِ قلب، ذہنی عارضوں اور ذیابیطس کی وجہ بن سکتی ہے، ناکافی نیند سے جسم کے ایک انتہائی اہم ہارمون کارٹیسول میں کمی ہوتی ہے۔ کارٹیسول جسم کے قدرتی دفاعی نظام کے لیے بہت اہم ہوتا ہے اس کی کمی سے جسم پر دباؤ اور ذہنی تناؤ کا اثر بہت بڑھ جاتا ہے جس کا اثر جسمانی اعضا پر ہوتا ہے اور وہ سرطان کی جانب مائل ہوسکتےہیں۔
روزانہ ورزش:
روزانہ کم ازکم  آدھے گھنٹے کی ورزش سے جسمانی ، ذہنی اور نفسیاتی صحت پر بہت مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جسمانی ورزش سے ذہن میں سکون آور مرکبات خارج ہوتے ہیں جو موڈ کو بہتر بناتے ہوئے تمام جسمانی اعضا پر بہت اہم اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ورزش سے سرطان کو دور کرنے میں بہت مدد ملتی ہے اور باقاعدگی سے ورزش کرنے والے اس موذی مرض سے دور رہتے ہیں۔
ذہنی تناؤ پر قابو پایئں:
ذہنی تناؤ اور پریشانی سے جان چھڑائیں اس سے تمام جسمانی اعضا اور افعال پر بہت ہی برا اثر ہوتا ہے اور یوں یہ کینسر جیسے موذی مرض کی وجہ بھی بنتا ہے اس لیے سوچ کو مثبت رکھیں اور ڈپریشن سے بچنے کی کوشش کریں۔

No comments:

Post a Comment